قدرتی ایندھن کے استعمال میں فوری کمی ناگزیر ہے
اپنی حالیہ رپورٹ میں موسمی تغیرات کے حوالے سے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے Intergovernmental panel on climate change (IPCC) نے کہا ہے کہ فی الوقت موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کم ازکم یا صفر کاربن معیشت کی طرف بڑھنے کے لیے دنیاکے سالانہ ترقیاتی اخراجات میں صرف٪0.06 کا اضافہ ہوگا، لیکن اگران اخراجات کا موازنہ نتیجے کے طور پربدلتے موسموں کے خطرات سے بچاؤ اور آلودگی سے خاصی حد تک پاک فضاسے کیا جائے (جس کی وجہ سے سانس کی بیماریوں میں کمی آ جائے گی) توفرق انتہائی صاف اور اخراجات اور نتیجے کا توازن واضح ہوجاتا ہے لیکن IPCCنے اس اہم نکتے کو اپنے تخمینے میں مد نظر نہیں رکھا ہے۔
اتوار کو برلن میں IPCCکے ورکنگ گروپ3 کی جاری کردہ رپورٹ کے اجرأ کے موقع پر پینل کے چیئرمین راجندرہ پچوری نے کہا کہ اگر انفرادی سطح پراپنے اپنے انفرادی لائحہ عمل پر آزادانہ عمل درآمد ہوتا رہے گا تو بدلتے موسموں کے خطرات کا مؤثر سدباب نہیں ہوسکے گا۔ اس رپورٹ میں بین الاقوامی سطح پہ آ پس میں تعاون کی ضرورت پہ روشنی ڈالی گئی ہے۔“یہ ورکنگ گروپ کاربن گیس کے فضأ میں اخراج کو کنٹرول کر کے موسمی تبدیلیوں میں کمی کے لیے اقدامات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔آئی پی سی سی اس سال کے آخر میں اپنے تینوں ورکنگ گروپس کی رپورٹ کا خلاصہ منظر عام پہ لائے گا۔
اس انتہائی تکنیکی رپورٹ کو آسا ن زبان میں اپنے قارئین تک پہنچانے کے لیے ہم نے بہت سے ملکی اور غیر ملکی ماہرین سے بھی بات چیت کی، مزید سہولت کے لیے ہم نے ماہر ماحولیات جوئے دیپ گپتا کی رپورٹ سے بھی استفادہ کیا جو انہوں نے عالمی سطح پر ماحولیات کے لیے کام کرنے والی وب سائٹ “TheThirdpole.net” کے لیے مرتب کی تھی۔ یہ ویب سائٹ ایشیا میں پانی کے مسائل کے حوالے سے خصوصی طور پر کام کرتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب اس بات پہ متفق ہے کہ موسموں میں تبدیلیاں اور بے ترتیبی پیدا ہو رہی ہے اور اس کی جہ وہ انسانی سرگرمیاں ہیں جن کے نتیجے میں کاربن گیس کا اخراج ہوتا ہے۔یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں زرعی پیداوار میں کمی ، خشک سالی ،سیلابوں اور طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ، سمندر کی سطح اور پانی میں تیزابیت کی شرح میں اضافہ ہے ، لیکن اس معلومات کے باوجود 1970 سے لے کر2010 تک ایسی تمام انسانی سرگرمیاں جاری رہیں جس سے کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ پچوری نے مزید نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ 2000 سے لے کر2010تک کی دہائی میں ہوا ہے۔
آئی پی سی سی کی اس رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق اس دوران میں فضا مےں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا %47 توانائی کے پیداوار کے نتیجے میں % 30صنعتی کارروائیوں کی وجہ سے اور %11 ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اضافے کے نتیجے میں ہوا ہے۔پچوری نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں کم کاربن پیدا کرنے والے توانائی کے صاف ذرائع میں کم از کم تین سے چار گنا اضافے کی اشد ضرورت ہے اور اس عمل میں جتنی تاخیر ہوتی جائے گی اتنا ہی یہ دشوار اور مہنگا ہوتا چلاجائے گا۔ بقول ان کے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ” بدلتے موسموں کے خطرات سے نمٹنے (mitigation) والی یہ تیز رفتارریل گاڑی اسٹیشن سے جلد از جلد روانہ ہو اور بین ا لاقوامی معاشرہ ہر صورت میں اس ریل گاڑی میں سوار ہو ۔“
ارباب اختیار کے لیے نسبتاًآسان خلاصہ
آئی پی سی سی کے اس ورکنگ گروپ 3کی اصل رپورٹ اس خلاصے کے مقابلے میں کافی سخت ہے جو کہ لائحہ عمل بنانے والوں یا پالیسی میکرز کو دیا گیاہے ۔ دنیا بھر کے بیوروکریٹس نے برلن میں پچھلے ہفتے اس رپورٹ کے خلاصے پر غور کرنے کے لیے ایک میٹنگ کا انعقاد کیا اور اس رپورٹ کی شقوں کو نسبتاً آسان کر کے آگے پیش کیا۔
اس تبدیلی کے باوجود کچھ اہم نکات بالکل واضح تھے۔ Ottmar Edenhoferاس فعال گروپ کے کو چیئر ہیں۔ اس رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی ترقی کی تیز رفتاری نے اخراج کی کمی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اگرخطرات کے سدباب کے عمل (mitigation) میں اضافہ نہ ہوا تو دنیا بھر میں اوسطً درجۂ حرارت میں 2100 تک،3.7 ڈگری سے 4.8 ڈگری سیلسیئس تک کا اضافہ ہو جائے گا۔ Edenhofer کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی روک تھام کے اس ان اقدامات (mitigation) کواہم تکنیکی اور ادارتی تبدیلیوں اورصفر کاربن توانائی ذرائع کے ذریعے سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔
اس تمام منظرنامے میں قابل تجدید توانائی میں %310 کا خطیر اضافہ اشد ضروری ہے۔اس کے لیے بین ا لاقوامی سطح پر فیصلہ کن اقدامات اور کاربن اخراج پر نسبتاً زیادہ قیمت مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ان دونوں مفروضوں پر بہت سے سوال اٹھتے ہیں ۔پچھلی دو دہائیوں میں United Nations Framework Convention on Climate Change کے تحت ہونے والے حکومتی مذاکرات کئی اہم زیر ِ غور پہلو ؤں کے حوالے سے تعطل کا شکار ہیں۔اگرچہ کاربن کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے مگر پھر بھی سائنس داں اس مقصد یا ہدف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کئی متبادل تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ Edenhofer کہتے ہیں ”یہ رپورٹ ہمیں امید دیتی ہے۔ ایک درمیانے درجے کی امید!“
اسی ورکنگ گروپ کی 2007 مییں شائع ہونے والی پچھلی رپورٹ کے برعکس موجودہ رپورٹ کے خلاصے میں پالیسی بنانے والوں کے لیے اس بات کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے کہ کس ملک کو انفرادی طور پریا ملکوں کے گروپ کو اپنے کاربن اخراج میں کس درجے تک کمی کرنے کی ضرورت ہے۔جب Edenhofer سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ اس طرح کے مخصوص اہداف کے تعین سے آپس میں اختلافات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومتوں نے محسوس کیاکہ پالیسی کے خلاصے میں اس کا ذکر مناسب نہیں ہوگا لیکن پھر بھی باب نمبر6 میں اس مسئلے کے حل اور اسے ایک دوسرے سے بانٹنے کے لیے کچھ منصوبے شامل ہیں ۔
جویا شری رائے جو Jadavpur University کلکتہ سے وابستہ ہیں اور اس رپورٹ کے صنعتوں سے متعلق ایک اہم باب کی مصنفہ بھی ہیں، نے تھرڈ پول کو بتایاکہ” صنعتی شعبے سے مضر گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی کے لیے اشد ضروری ہے کہ ایک وسیع ترپیمانے پرسدباب (mitigation) کے طریقوں کو بروئے کار لایا جائے جو کہ باکفایت توانائی کے مروجہ طریقوں سے بہت آگے کی چیز ہو۔ مثال کے طورپر چھوٹی اوردرمیانی درجے کی صنعتوں SMEs (small and medium enterprises)میں پائدار اور ہم آہنگ ٹیکنالوجی کا تعارف، صرف زیادہ توانائی استعمال کرنے والی صنعتوں کے بجائے ہر صنعت کی یہ کاوش کہ کاربن اخراج کو کم کیا جائے۔طرزِ زندگی اور اس کے نتیجے میں توقعات کی سطح میں تبدیلی چاہے وہ بلواسطہ( مثلاً کھانے کی اشیا اور لباس ) ہوں یا بلا واسطہ ( مثلاً سیاحت سے متعلق پیداوار اورخدمات کی طلب) ، دیرپا مصنوعات، اشیا کا بہتراستعمال اور کم کاربن خارج کرنے والی بجلی، قدرتی ایندھن اور CCS (carbon capture and storage) (ابھی بہت سارے ممالک میں اس عمل کا تجربہ نہیں کیا گیا ہے) کا استعمال اس حوالے سے موثر ثابت ہوسکتا ہے۔اس حوالے سے سب سے کارآمد طریقۂ کار کوڑا کرکٹ کا انتظام یعنی اس کے استعمال میں کمی کرنا ہے ، مزید ممکنہ طریقۂ کار ان اشیا کا دوبارہ استعمال، ان کو ری سائیکل کرنا اور ان سے توانائی حاصل کرنا ہے۔ فی الوقت دنیا بھر میں صرف %20 ہی MSWکو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔صنعتی شعبوں میں مضر گیسوں کا اخراج کم کرنے والے بہت سے طریقے موجود ہیں جو مفید اور منافع بخش ہیں۔
توانائی سے متعلق ماہرSrinivas Krhishnaswamy جو وسودھا فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے سربراہ ہیں ۔ انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ مذکورہ رپورٹ نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ دنیا کا درجۂ حرارت 2 ڈگری سلیسیس سے نیچے رکھنا اب بھی ممکن ہے۔انہوں نے اس بات کی بھی تروید نہیں کی کہ یہ درجۂ حرارت بڑھنے کا یہ عمل مزید کم یعنی 1.5 ڈگری سلیسیس تک بھی لایا جا سکتا ہے۔مزید برأں رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عالمی درجۂ حرارت کو 2 ڈگری سلیسیس سے نیچے رکھتے ہوئے اور موسمی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے انتہائی خوش امیداور بلند mitigation اہداف پہ عمل درآمد کرنے سے اخراجات میں سالانہ صرف%0.06 کا اضافہ ہوگا۔سب سے اہم بات جو اس رپورٹ نے واضح کی ہے وہ یہ ہے کہ خطرات سے نمٹنے کے اقدامات پہ ہونے والے اخراجات کا معاشی تخمینہ ان اخراجات کے مقابلے میں انتہائی معمولی ہیں جو مستقبل میں موسمی تغیرات کے اثرات سے بچنے کے لئے کرنا نا گزیر ہوں گے۔
معمول کے ترقیاتی منصوبے ۔۔۔ اب مناسب نہیں
اسٹاک ہوم انوائرنمنٹل انسٹی ٹیوٹ سے وابستہSivan Kartha جو اس پورٹ کے غیر جانبدارانہ پائدار ترقی کے متعلق ابواب کے اہم مصنف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ IPCC نے اب موسمیات کو تیز رفتار ترقیاتی منصوبوں کو لاحق ایک چیلینج کے اہم جز کے طور پہ پیش کیا ہے۔ یہ منصوبے اب بھی کئی ترقی پزیر ممالک کی اہم ترجیحات میں سے ہیں۔IPCCنے یہ تجاویز اس وجہ سے پیش کی ہیں کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے مسئلے کو حل کرنا ہے تو ترقی پذیر ممالک کو اس میں شامل کرنا ہوگا کیونکہ یہی ممالک کاربن اخراج کی کثرت کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔لیکن یہی ممالک دنیا کے غریب آبادی کا مسکن بھی ہیں۔ چنانچہ اگر ان کو ان اقدامات میں شامل کیا جائے تواس طریقے سے کہ وہ اپنی ترقیاتی ضروریات نہ صرف پوری کر سکیں بلکہ ان کو ان منصوبوں کو مکمل کرنے میں کچھ مدد بھی مل جائے۔ لیکن ایک بات جو IPCC نے بالکل واضح کر دی ہے وہ یہ ہے کہ معمو ل کے مطابق ترقیاتی منصوبے اب ترجیحی عمل نہیں ہوسکیں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کام کرنے والی انٹرنیشنل کلائمیٹ کمپین 350 org کے جنوبی ایشیا کے کوآرڈینیٹرChaitanyaKumar نے کہا کہ ہم یہ حقیقت جانتے ہےں کہ کسی بڑی موسمیاتی آفت سے محفوظ رہنے کے لیے یہ امر بہت ضروری ہے کہ قدرتی ایندھن کے %80 ذخائر زیر ِزمین ہی رہیں۔اس حقیقت کو جاننے کے باوجود انڈیا کی حکومت اور قدرتی ایندھن کی صنعت ہر سال نئے ذخائر تلاش کرنے ان کی کھدائی اور درآمد میں اربوں روپیہ خرچ کر رہی ہے۔ اس کام میں بڑھتی ہوئی سیاسی بددیانتی بھی ملوث ہے۔ہمارے پاس قدرتی ایندھن کے بدلے میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال کا ترجیحی راستہ موجود ہے۔ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم صوبائی سطح پہ نسبتاً صاف توانائی حاصل کرنے والے طریقوں پہ سرمایہ کاری کریں۔
بین الاقوامی تنظیم گرین پیس چائنا کے کلائمیٹ اور انرجی پالیسی آفیسر Li Shou کہتے ہیں موسمی تغیرات ہمارے لئے ایک بوجھ کے بجائے ایک نفع بخش موقع ہیں۔کیونکہ قابل تجدیدتوانائی کا استعمال دن بدن ارزاں، بہتر اور زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ کوئلے، تیل اور گیس کے استعمال سے درپیش آلودگی اور خطرات کا دور ختم ہو چکا ہے۔
اس رپورٹ کا واحد منطقی اطلاق یہی ہے کہ قدرتی ایندھن کے استعمال میں فوری طور پہ کمی شروع کی جائے۔بات بہت سادہ ہے، جتنا ہم انتظار میں وقت ضائع کریں گے اتنی ہی موسمیاتی تبدیلیاں انہیں مہنگا پڑیں گی۔
اقوام متحدہ کہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے سربراہ Achim Steiner نے نشان دہی کی کہ دنیا میں اوسطًا 2 ڈگری سلیسئیس تک درجۂ حرارت محدود رکھنے کو ممکن بنانے کے لیے دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج 2010 کے مقابلے میں اس صدی کے نصف (2050) تک %40 سے %70 کم کرنا ہوگا اور صدی کے آخر تک اسے صفر کے قریب لانا ہوگا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کے گلوبل کلائمیٹ اور انرجی انیشیٹو کے لیڈر Samantha Smith نے کہا کہ ٰIPCC کا موقف بالکل واضح ہے کہ موسمی تبدیلیوں پر سرمایہ کاری ممکن اور نفع بخش ہے اوراس کے لیے وسائل بھی موجود ہیں۔اگر ہم فوری طور پہ عمل کریں گے تواس میں ہونے والے اخراجات دنیا کی معیشت کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہوں گے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ کام بہت مشکل اور مہنگا ہے ان کا خیال غلط ہے۔مگر یہ بات بہت فوری توجہ طلب ہے کیونکہ فوری عمل نہ کرنے کے نتیجے میں اس کے اخراجات اور رد عمل میں اضافہ ہوتا چلا جائےگا۔سب سے پہلا اور فیصلہ کن قدم اس شعبے میں سرمایہ کاری کے بہاؤکے رخ کو تبدیل کرنا ہے۔کوئی بھی سرمایہ کار جو اس رپورٹ کو دیکھے گا اس ظاہری نتیجے پہ پہنچے گاکہ وہ وقت آ چکا ہے جب قدرتی ایندھن کے ذخائر اور ان کے نتیجے میں ہونے والی آلودگی میں سے سرمایہ نکال اسے قابل تجدید اورصاف توانائی اور توانائی کی کمی دور کرنے کے طریقوں پر صرف کرے گا۔